اب تو ہجومِ شہر سے
ڈر لگتا ہے مجھے
اب تو ہر انسان
اپنے ہی گھر سے
بے گھر لگتا ہے مجھے
اب تو اتنا خون بہا ہے
اِن شہروں میں
اب تو ہر سو طوفان لگتا ہے مجھے
اب کس طرح تلاش کروں میں وفا
آستین میں چھپا مجھے
ایک خنجر لگتا ہے مجھے
کیسے کروں میں
ظلمتوں کے گہرے ساۓ ختم
ہر گھڑی میں
طوفان کا دھڑکا
سا لگا رہتا ہے مجھے
میں اب اپنے غم
میں تو بھول گیا ہوں
مسعود غموں میں پڑا
سارا شہر لگتا ہے مجھے