کیوں رات کے ریت پہ بکھرے ہوئے
تاروں کے کنکر چُنتی ہو
کیوں سناٹے کی سلوٹ میں
لپٹی ہوئی آوازیں سنُتی ہو
کیوں اپنی پیاسی پلکوں کے جھالر میں
خواب پرُوتی ہو
کیوں روتی ہو
اب کون تمہاری آنکھوں میں
صدیوں کی نیند اُنڈیلے گ
اب کون تمہاری چاہت کی
ہریالی میں کُھل کھیلے گ
اب کون تمہاری تنہائی کا
اَن دیکھا دُکھ جھیلے گ
اب ایسا ہے
اب رات مُسلط ہیں جب تک
یہ شمعیں جب تک جلتی ہے
یہ زخم جہاں تک چبُھتے ہے
یہ سانسیں جب تک چلتی ہے
تم اپنی سوچ کے جنگل میں ، رہَ بھٹکو اور پھر کھو جاؤ !!
اب سو جاؤ