ہم بہاروں میں ملتے رہے مدتوں
چاہتوں کے کنول
دل کی جھیلوں میں کھلتے رہے مدتوں
وا نگاہوں سے ہم خواب بنتے رہے
پھول چنتے رہے
بیٹھ کر سایہءِ شاخِ گل کے تلے
ہر کلی کے چٹکنے کی دھیمی سی آواز سنتے رہے
پیار کے راستے مسکراتے رہے
خواہشوں کے محل ہم بناتے رہے
پھر اچانک جدا راستے ہو گئے
قربتیں کھوگئیں
فاصلے ہوگئے
پھر بہاروں کے موسم میں گل نہ کھلے
زخم ایسے ملے جو کبھی نہ سلے
ہم نہ تم سے ملے تم نہ ہم سے ملے
وقت کے ساتھ موسم بدلتے رہے
تم ہمیں بھول کر مسکراتے رہے
ہم اکیلے تمہیں یاد کرتے رہے
یاد کی آ گ میں روز جلتے رہے
اور پھر میری جاں
وقت کے سانچے میں ہم بھی ڈھلتے گئے
خواہشوں کو خود اپنی مسلتے گئے
دل کے جذبات دل میں فنا ہوگئے
ہم ترے بعد خود سے جدا ہوگئے
پھر تمہاری طرح بے وفا ہوگئے
مسکراتے ہوئے راستے آنسوؤں میں بدل بھی گئی
ہم خود اپنی لگائی ہوئی آ گ میں کب کے جل بھی گئے
تم نے جو زہر ہم کو دیا تھا اسے ہم نگل بھی گئے
خواہشوں کے محل حسرتوں کے مزاروں میں ڈھل بھی گئے
اب مری جان تم
لوٹ آؤ تو کیا
لوٹ جاؤ توکیا