اب مصرعۂ جاں بن کے تو قرطاس پر اتر

Poet: معدوم فیروزی By: احمد علی, Haripur

اب مصرعۂ جاں بن کے تو قرطاس پر اتر
اب بڑھ رہی ہے بے حسی احساس پر اتر

دکھلا نہ جھومتے ہوئی دو آنکھیں مجھ کو اب
حرفِ تسلی بن جا مری پیاس پر اتر

تو آیتِ سکینہ ہے الہام کی طرح
مجھ کو سکوں دے اور دلِ حساس پر اتر

مٹ جائے گی کشیدگی دل کی کشود سے
نقشِ جہانِ بَست تو الماس پر اتر

کھو بیٹھے اہلِ ہجر حواس اپنے ہجر میں
اے سمتِ وصل اب تو تو کمپاس پر اتر

تو دیوی حسن کی ہے عنایت تو کر دے کچھ
اوتار عشق کا لے کسی داس پر اتر

لگتی ہے ہجر میں تو شکر بھی کریلے سی
شیرینئ حیات تو میٹھاس پر اتر

آخر زبانِ شمعِ یقیں کٹ رہی ہے اب
معدوم کہہ غمِ جاں کو اب آس پر اتر

Rate it:
Views: 177
06 Mar, 2025