کبھی تو آ میری آنکھوں میں زندگی بن کر
ہمیشہ ملتا ہے کیوں مجھ سے اجنبی بن کر
نہیں ہے کوئی مجھے اب پکارنے والا
فلک سے اترے کوئی آس آخری بن کر
میری حیات کا مقصد بدل دیا اس نے
لبوں پہ آج بھی رہتا ہے کوئی تشنگی بن کر
بہت ہی دور جسے رہنا تھا خیالوں سے
بکھر گیا کسی صحرا میں زبدگی بن کر
اب میرا ساتھ شاہین سبھی نے چھوڑ دیا
کہ اک پل بھی گزرتا ہے اک صدی بن کر