اب نہ آئے وہ کبھی میرے گھر کو سجانے کے لئے
وہ چاند ہے یا سورج مجھے اس سے غرض نہیں
مجھے عشق ہے خلوت سے دیا ہے پیار نے تحفہ
یہ میرا نصیب ہے میں نے لیا یہ قرض نہیں
کون کرتا ہے بیاں قصہ الفت کہہ دو اُسے
میرے زخموں کو نہ چھیڑو یہ علاج مرض نہیں
شریک اپنی خوشیوں میں کر کے علم اپنی بےوفائی کا
میری خاطر کوئی رسوا ہو یہ اس کا فرض نہیں
شہر خموشاں کے وسط میں دفن کرو یار مجھے
دلِ خالد کی تمنا ہے یہ میری کوئی عرض نہیں