اب نہیں کوئی مدّعا جاناں
تُو بھی جا میں بھی اب چلا جاناں
کیا سناؤں میں سرگشتِ دل
بِن تمہارے نہیں لگا جاناں
دل گلی کے اُس آشیانے کو
کس نے برباد کر دیا جاناں
ہجر اور وصل کے جو شب دن تھے
وہ گئے بھول راستہ جاناں
جو لگا تھا تمہاری فرقت کا
زخمِ وہ کب کا بھر چکا جاناں
تیرے آنے کی آس میں یہ دن
بن تمہارے بسر گیا جاناں
آ پڑا ہے عذاب فرصت کا
ماتمِ ہجر کر لیا جاناں
جو نشہ تھا تری محبت کا
وہ نشہ بھی نہ اب رہا جاناں
شہرِ ارمان کر لیا آباد
صحنِ دل ہو گیا تبہ جاناں
دربدر ٹھوکریں جو کھاتا رہا
شخص وہ اب سنور گیا جاناں
آپ میں تم بھی نہ رہی اپنی
آپ میں میں بھی نہ رہا جاناں
یعنی اب کیا بچا ہے کہنے کو
یعنی اب کچھ بھی نہ بچا جاناں