خود سوزی پہ آمادہ ہیں سلگے ہوئے حالات
تخریب کی سازش سے ہیں جھلسے ہوئے حالات
دامن میں نہیں وعدہ فردا بھی کوئی اب
لشکول گدائی لئے ترسے ہوئے حالات
خود راہ گزر کور نگائی کو تھماکر
کس موڑ پہ لے جائیں گے بھٹکے ہوئے حالات
اب ان کے تھپیڑوں سے نہیں کوئی سلامت
اک سیل بلا خیز ہیں بھیرے ہوئے حالات
کیا سر نہ اٹھائیں گے کبھی جبر کے آگے
ہیں حسرت تعمیر میں سہمے ہوئے حالات
اک بند گلی میں یہ کھڑے سوچ رہے ہیں
کیا ہم کو بدل پائیں گے بدلے ہوئے حالات
اب وشمہ بہت بیت گیا ہم کو زمانہ
اس دور ستم ریز میں سہتے ہوئے حالات