اب کوئی گھر ہے نہ دیوار نہ در میرا ہے
جس کی منزل ہی نہیں ایسا سفر میرا ہے
اُس کو پانے کی نہ کوشیش کی ہمیشہ سوچا
خود ہی مل جائے گا وہ شخص اگر میرا ہے
شہر سے دُور ویرانے میں جو کچھ ملبہ ہے
اُس کے کھنڈرات کے اندر کہیں گھر میرا ہے
صحن میں چھاؤں نہ پنچھی نہ ہوا نہ خوشبو
اب کے موسم میں ہر اک سوکھا شجر میرا ہے
بے بسی بکھرے ہوئے خواب اداسی اور تُو
یہ کسی اور کا ملبہ ہے مگر میرا ہے
ہم تو ہیں گزرے زمانے کی روایت میں عقیلؔ
یہ جو مسمار ابھی تک ہے نگر میرا ہے