بہت آگہی کے ستم بڑھ گئے ہیں
چلو عشق کر لیں کہہ غم بڑھ گئے ہیں
کبھی ہم نے آواز دی وہ نہ ٹہرا
کبھی ُاس نے روکا تو ہم بڑھ گئے ہیں
مرا کیا ہے ‘تجھ کو ضرورت ہے میری
تیری زلف کے پیچ و خم بڑھ گئے ہیں
کوئی میرے اقبال کو یہ بتا دے
صنم تو صنم تھے حرم بڑھ گئے ہیں
تیرا ہر سفر زندگی کی نفی ہے
اگر بے ارادہ قدم بڑھ گئے ہیں
میں کس کے تحفظ میں بازو کٹاؤں
یہاں بے تحاشا علم بڑھ گئے ہیں