ہرشخص جسے دیکھو یہاں شعلہ چشم لگتا ہے
اب دنیا میں تیری سانس لینا بھی جرم لگتا ہے
لذتِ غم ایسی ہے کہ احساس سے عاری ہے بدن
اب کہ ہرعارضہ مجھ کوتیرا لُطف و کرم لگتا ہے
ہر رستہ ہے پرُخار، ہرشب شبِ درد ہو جیسے
اذیت کی امر بیل پر ہر روز نیا زخم لگتا ہے
گریزاں ہیں سبھی مجھ سے کہیں ایسا تو نہیں
کچھ مجھ میں کمی ہوگی کچھ مجھ میں سقم لگتا ہے
ساتھ رہنے کی میرے، اُٹھا رکھی ہو قسم جیسے
یہ ہجر کا غم بھی میری طرح پُختہ عزم لگتا ہے
یہ زیست ِ لاحاصل اُس کی دہلیز پہ گزری ہے
کیا پوچھتے ہو میرا کیا وہ پتھرکا صنم لگتا ہے
لگتا ہے ٹوٹ کے بکھرے ہو بڑی شدت سے
لہجے میں بڑاکرب، باتوں میں بڑا دم لگتا ہے
کچھ عجب سی ہوا چلی ہے دل کےآنگن میں
اب کہ ہر موسم ہی رضا، موسم ِ غم لگتا ہے
تیری یاد میری آنکھوںمیں جھلماےئی ہے
آج پھر ٹوٹ کے برسے گا یہ ابرِکرم لگتا ہے