اب کے لگتا ہے جاں سے گُزرنا ہوگا
دلِ ناداں تجھے ٹُکڑوں میں بکھرنا ہوگا
تیرا کام ہے کیا خوشبو کے جزیروں پر
موجِ رواں تجھ کو سمندر میں اُترنا ہوگا
اشک شُوئی سے کچھ بھی نہ ہوا حاصل
خونِ جگر، جو کرناہے تجھے ہی کرنا ہوگا
آج کی شب بھی کٹی ہے آہوں میں
اب کے ہرشب کو یوں ہی گُزرنا ہوگا
درد کا سورج بھی ڈھل جائے گا اِک دن
شبِ ظلمت میں میرے چاند کو اُبھرنا ہوگا
ترک تعلق سے بھی ٹوٹا نہیں اُمید کا کانچ
جب کے معلوم ہے وہ میرا منتظر نا ہوگا
میرا ہے ارماں کہ تیری دہلیز پہ دم نکلے
یہ اور بات ہے کہ تونے ملنا ہی اَگر نا ہوگا
ایک مدت سے حراساں کیے رکھا ہے مجھے
اب کے دنیا کو عتا ب ِ جَنوں سےڈرنا ہوگا
اب وہ آنکھیں ہی کسی اور کی امانت ہیں
اب یہاں کس کے لیے سجنا سنورنا ہوگا
لمبی مسافت ہے اور تھکن سے چوُر رضا
کسی موڑ پہ کچھ دیر تو اب ٹھہرنا ہوگا