اب یہ سوچوں تو بھنور ذہن میں پڑ جاتے ہیں
کیسے چہرے ہیں جو ملتے ہی بچھڑ جاتے ہیں
کیوں تیرے درد کو دیں تہمتِ ویرانئیِ دل
زلزلوں میں تو بھرے شہر اُجڑ جاتے ہیں
موسمِ زرد میں ایک دل کو بچاؤں کیسے
ایسی رُت میں تو گھنے پیڑ بھی جھڑ جاتے ہیں
اب کوئی کیا میرے قدموں کے نِشاں ڈھونڈے گا
تیز آندھی میں تو خیمے بھی اُکھڑ جاتے ہیں
شغلِ اربابِ ہنر پوچھتے کیا ہو کہ یہ لوگ
پتھروں میں بھی کبھی آئینے جڑ جاتے ہیں
سوچ کا آئینہ دُھندلہ ہو تو پھر وقت کے ساتھ
چاند چہروں کے خدوخال بگڑ جاتے ہیں
شِدّتِ غم میں بھی زندہ ہوں تو حیرت کیسی
کچھ دیے تُند ہواؤں میں بھی لڑ جاتے ہیں
وہ بھی کیا لوگ ہیں محسن جو وفا کی خاطر
خود تراشیدہ اُصولوں پہ بھی اَڑ جاتے ہیں