تیری ابتدا کوئی اور ہے تیری انتہا کوئی اور ہے
تیری بات ہم سے ہوئی تو کیا تیرا مداوا کوئی اور ہے
ہمیں شوق تھا بڑی دیر سے کہ تیرا شریک سفر بنے
تیرے ساتھ چل کے خبر ہوئی تیرا راستہ کوئی اور ہے
تجھے فکر ہے کہ بدل دیا مجھے گردش شب و روز نے
کبھی خود سے بھی تو سوال کر تو وہی ہے یا کوئی اور ہے