ابتدائے عشق نے یارو! شمشیر نئی مانگی ہے

Poet: فرخ اقبال By: Farakh Iqbal, Lahore

ابتدائے عشق نے یارو! شمشیر نئی مانگی ہے
نیا قصہء درد مجھ سے؛ نظیر نئی مانگی ہے

شامِ غم بھولا کر تیرے پہلو میں دل نشیں
میری محبت نے تم سے تانیر نئی مانگی ہے

چل رہے ہیں گویا ہم اسی فرش خاکی پہ
تمناؤں نے مگر پھر سے اثیر نئی مانگی ہے

چھوڑ کر تو نہیں جا رہا تجھے میں ہمنوا
بس یونہی زلفوں کی اسیر نئی مانگی ہے

توڑ کر آئے تھے حدیں تمام جس کی خاطر
اُسی جفا کار نے عشق میں لکیر نئی مانگی ہے

میرا عشق نہیں ہے مختاج تیرے لفظوں کا فرؔخ
زمانے کو دکھانے کے لیے تقریر نئی مانگی ہے

رسوائے زمانہ ہوں پرخار ہے دامن انتظار
کچھ نہیں بس تم سے توقیر نئی مانگی ہے

Rate it:
Views: 796
29 Apr, 2018
More Sad Poetry
ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے یہاں لیکن
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
MAZHAR IQBAL GONDAL