ابن آدم ترےنصیب میں آرام کیوں نہیں
تپتی ہوئی ہواوٴں میں کوثر و جام کیوں نہیں
بدلتی ہوئی رُتیں بھی جواب دے نہ سکیں
جی رہا ہوں یہاں ، پھر مجھے دوام کیوں نہیں
آنکھ کھلی تو دیکھے یہ شام و سحر میں نے
بند آنکھوں کے واسطے کوئی مقام کیوں نہیں
رہتے ہو دوست ہمیشہ اپنے ہم نشینوں میں
دو گھڑی کا سہی مرے گھر میں قیام کیوں نہیں
آزمائے لیے سارے اطوار تا عمر اغیار کے
تہذیبِ بتاں کب تلک ، اب اسلام کیوں نہیں
یہ میری ذلتوں اور پستیوں کی انتہا عرفان
کھارہا ہوں جسکا ، محوِ زباں اس کانام کیوں نہیں