ابھرتی ہے تصور ذہین میں اک بےوفا جیسی
ہے کیفیت ہماری بھی پیار کے انکار جیسی
جھیلتے رہے اس کی نفرت سزا سمجھ کر
بنتی ہے اب صورت اپنے ہی افکار جیسی
اس کے لفظوں کی حلاوت محسوس کرتے ہیں
بجتی ہے کانوں میں راگنی اس کے گفتار جیسی
ہوتا ہے ذکر اس کا ہماری باتوں سے عیاں
بن جاتی ہے ہماری ہر تحریراب اشعار جیسی