تری تصویر کے ٹکڑے کیے ہیں
ابھی تقدیر کے ٹکڑے کیے ہیں
تری جانب سے جو مجھ کو ملی تھی
اُسی تحریر کے ٹکڑے کیے ہیں
عداوت پڑ گئی ہے بھائیوں میں
تبھی جاگیر کے ٹکڑے کیے ہیں
مرے پاؤں میں ہے جو بےبسی کی
کہاں زنجیر کے ٹکڑے کیے ہیں
کمانیں توڑ دیں ہیں زرم گہ میں
ہر اک شمشیر کے ٹکڑے کیے ہیں
کسی بنیے نے کتنی بے دلی سے
مرے کشمیر کے ٹکڑے کیے ہیں
تھے آنکھوں میں مری خوابوں کے خزانے
مگر تعبیر کے ٹکڑے کیے ہیں