ابھی تو اسی کارواں کے مسا فر ہیں
جس میں تمہارے ہمسفر ٹھہرے ہیں
راستے کب ، کیسے جدا ہو جائیں کیا خبر
کر لو آؤ بھگت دو دن جو مہماں ٹھہرے ہیں
میں ان پختہ گلیوں ، پکےمکانوں سےدورکاباسی ہوں
چند مجبوریوں کے باعث تیرے شہر اماں میں ٹھہرے ہیں
محبت راس نہ آئی تو شعر کہنے لگ پڑے ہیں
کہتے ہیں کبھی ہم بھی صاحب عر فاں ٹھہرے ہیں
کرلو اسی عہد میں جو کرنے ہیں گلے شکو ے
پھر کیا معلوم، کیاخبر یہ رفتگاں کہاں ٹھہرے ہیں
میں ملوں گا اسے کسی اور ہی دنیا میں ذیشان
جہاں میرے جیسے درد ماندہ و پر یشان ٹھہرے ہیں