ابھی تو طے نہ ہوا تھا مرا سفر آدھا
وہ لے گیا ہے مرا جسم کاٹ کر آدھا
رہا نہ شاملِ محنت جو ایک چوتھائی
وہی شجر سے اتارے گا اب ثمر آدھا
گرا کے سانجھ کی دیوار اپنے آنگن میں
ملا لیا ہے پڑوسی نے میرا گھر آدھا
تری گلی سے گزرتے ہیں تیرے دشمن بھی
کھلا نہ چھوڑ گیا کر مکاں کا در آدھا
کچھ ایسے خوف سے چڑیا اڑی صنوبر سے
الجھ کے ٹوٹ گیا ٹہنیوں میں پر آدھا