روز دیکھتی ہیں آنکھیں کتنے محرمات
کسلِ نفسی سے چھوٹتے رہے واجبات
طلبِ دنیا نے نہ سنواری دنیا مری
ہاں بگڑے ہیں خالق سے تعلقات
اس نے کہا فکر نہ کر عطا کروں گا
ہر سانس پہ دل میں اٹھے مگرسوالات
توکل کی نیا ڈولتی رہی عمر بھر
بنے طوفان بدلے جب خیالات
کھٹرا ہوں مگر ساکت ہے جان
اترا نہیں ابھی روح میں لطفِ تجلیات
بھلا کر رموزِ عشق ہو ا ہوں بت پرست
ہوتی ہے بت کدوں میں ادا بندگی کی رسومات