اتنا تو ہوا اے دل اک شخص کے جانے سے
بچھڑے ہوئے ملتے ہیں کچھ دوست پرانے سے
اک آگ ہے جنگل کی رسوائی کا چرچا ہے
دشمن بھی چلے آئے ملنے کے بہانے سے
اب میرا سفر تنہا اب اس کی جدا منزل
پوچھو نہ پتہ اس کا تم میرے ٹھکانے سے
روشن ہوئے ویرانے خوش ہو گئی دنیا بھی
کچھ ہم بھی سکوں سے ہیں گھر اپنا جلانے سے
رسوائی تو ویسے بھی تقدیر ہے عاشق کی
ذلت بھی ملی ہم کو الفت کے فسانے سے