اتنی اونچی بھی اب اڑان نہ بھر
رکھ زمینی حقیقتوں پہ نظر
یونہی کب تک تکے گا راہ گزر
دور منزل ہے کر لے عزم سفر
ٹمٹماتا ہے زندگی کا چراغ
جلتا بجھتا رہے ہے شام و سحر
ختم ہونے لگی ہے بینا ئی
دور ہونے لگے ہیں نور نظر
مفلسوں کے چراغ جلنے دے
اے ہوا آندھیوں کے کان نہ بھر
جانے کس دم بلا وا آ جائے
اب حسن باندھ بھی لو رخت سفر