نہ آیا کچھ، فقط آیا بگاڑ کر رکھنا
کمی ہے خود میں تو الزام اور پر رکھنا
پیام اس کے سوا اور کچھ نہیں میرا
حوالہ شعر کا اے دوست معتبر رکھنا
مثال تم کو عزازیل کی بہت ہو گی
خیال دل میں بڑائی کا ہو اگر رکھنا
گناہ اپنی سرشتوں میں ہے سو ہوتا ہے
ذرا سا دل میں مگر تم خدا کا ڈر رکھنا
بھلائی جاتی نہیں ہیں وہ چاندنی راتیں
تمہارے شانوں پہ بے چین ہو کے سر رکھنا
ہوئی ہے نصف صدی شعر ماپتے ہم کو
نہ آ سکا ہے مگر بات میں اثر رکھنا
مجھے بھی یاد دعاؤں کے بیچ میں حسرتؔ
اگرچہ کام ہے مشکل بہت، مگر رکھنا