وہ اجنبی بہت یاد آتا ہے جو ملا اک انجانے موڑ پر اک انوکھی دنیا میں سپنے سجا کر آنکھوں میں اک شام چلا گیا اپنی یادوں کے سہارے بند گلی میں چھوڑ کر اس دنیا کے بھیڑ میں نہ جانے کہاں کھو گیا جو اجنبی کم پر اپنا ذیادہ بہت یاد آتا ہے