اجڑا میری محبت کا گلستان رفتہ رفتہ
جیسے نکلتی ہے جسم سے جان رفتہ رفتہ
جب بھی سنانا چاہا اسے اپنے غم کا افسانہ
دور ہوتا گیا مجھ سے آسمان رفتہ رفتہ
لوگ کر رہے ہیں تعمیر بہت عمدہ عمارتیں لیکن
دنیا ہوتی جا رہی ہے ویران رفتہ رفتہ
لگتا ہے میرا خدا خفا ہے مجھ سے
غم کر رہے ہیں مجھکو پریشان رفتہ رفتہ
میں کہاں تک لے کے چلتا اس غم کے بوجھ کو
یارو تھک بھی جاتا ہے آخر انسان رفتہ رفتہ
امتیاز دوستی پہ جن کی مجھے ناز تھا بہت
دشمن ہو گئے وہ سارے مہربان رفتہ رفتہ