میں ایسا تو نہ تھا جیسا بنا دیا مُجھ کو
جوغم ملا وہ ہی میرا ہے بتا دیا گیا مجھ کو
اور نہ کہنا کُچھ بات دل پہ گُزری ہے
بات بڑھے گی دکھ ہوگا سیکھا دیا گیا مُجھ کو
کبھی امبر کے ستاروں میں چہرے تراشتا تھا
میں اب لائق نہیں اس کے کہ اتنا گرا دیا گیا مُجھ کو
ہم تنہا ہیں خود کہ ساتھ کوئی ہم راہ نہیں ہے
کہ ہر محفل میں جگہ پائی پر بہلاوے میں بھلا دیا گیا مُجھ کو
کبھی تو یاد آؤں گا اے کامران کسی کو روز و شب
کہ کیوں بے جا سر دوپہر مثل چراغ جلا دیا گیا مُجھ کو