احساس کے سمندر میں تخیل کے سہارے
ہم ملتے ہیں تجھے ہر شام یوں پیارے
ستم تھی جو تیرے بن ہم نے گزاری
غضب تھے دن جو تیری چاہ میں گزارے
چاند کی صورت کبھی ہوا کی مانند
تیری مثل میں لکھے ہم نے کتنے استعارے
عشق میں ہم پہ کیا کیا نہیں بیتی
کبھی بارش نے جلایا کبھی ہنستے رہےتارے
اپنی ہی ذات میں کہیں قید ہو عنبر
منتظر ہیں آ دیکھ تیرے کتنے نظارے