مشکلیں اپنی جگہ ہیں حوصلے اپنی جگہ
منزلوں کی کھوج میں فاصلے اپنی جگہ
اپنی مٹی کس قدر آباد ہے دیکھو! مگر
اسکی تہہ میں سراٹھاتے زلزلے اپنی جگہ
زندگی کی زرنگاری ہے بہت دلکش مگر
مصلحت کی چادروں میں مسئلے اپنی جگہ
ذات پررشتوں کی گہری چھاپ کا جلوہ الگ
روح سے جڑتے ہوئے کچھ سلسلے اپنی جگہ
پالتے تدبیر کے پنچھی کو ہم بھی ناز سے
وقت کے ہاتھوں میں پلتے حادثے اپنی جگہ
عادتیں رخ پھیر لیتی ہیں مناسب وقت پر
لمحہ لمحہ ساتھ رہتے مشغلے اپنی جگہ
یوں تو دل بھی کانپتا ہے آمد طوفان سے
موج سنگ بہنے کے لیکن ولولے اپنی جگہ
چاہتوں کی ٹھنڈی چھاؤں مل گئی سدرہ مگر
نفرتوں کے دھوپ ملتے قافلے اپنی جگہ