اداس رت میں
لہو کی بوندوں میں
بس اداسی ہی جاگتی ہے
کہیں پڑھا تھا کہ پھر سنا تھا
تو یوں بھی ہوتا ہے یہ اداسی
تمام یادوں کی نرم و نازک سی کونپلوں کو
کبھی اچانک ہی نوچ لیتی ہے
بے خیالی میں بے خودی میں
سنو یہ دھڑکا لگا ہے من کو
نہ ایسا ہو کہ تم ایسی رت میں ہمیں بھلا دو
یہی تو تم سے کہا تھا جاناں !
وہی ہوا ناں۔ ۔ ۔ ۔بھلا دیا نا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟