اس شھرِ خموشاں کے دریچے اداس ہیں
باغیچے بھی سنسان ہیں، غنچے اداس ہیں
صبحِ ازل سے لکھا ہے قسمت میں اضطراب
مخلوق بھی، خالق کے بھی چرچے اداس ہیں
آئی ہے میرے شہر پہ ایسی خزاں کہ اب
شبنم ، بہار ، تتلی ، پرندے ____ اداس ہیں
کھیلوں کے جو میدان تھے، میدانِ حرب ہیں
سٹاپو ، پتنگ ، گْڈیاں ، کنچے ____ اداس ہیں
مالی چمن کا راہئ راہِ عدم ہوا
اب کے برس گلاب کیا ، لالے اداس ہیں
تم کیا گئے کہ شہر کی رونق بھی گل ہوئی
لیل و نہار ، بارشیں ، کوچے ____ اداس ہیں
یوں جانبِ میخانہ سے گونجی ہے اک صدا
شمع ، خمار ، ساقی و پیالے اداس ہیں
آئی شبِ وصال بھی فرقت لئے عْزیر
ان کی ادائیں ، شوخیاں ، دیدے اداس ہیں