اداسیوں کی رت ھمیں رلا کے چھوڑ گئی
زندگی منجھدار میں گھما کے چھوڑ گئی
لباس مجاز میں تو حقیقت تھی آشنا
جب آشکار ھوئی تو تڑپا کے چھوڑ گئی
خیالوں کی بارات میں وہ شام درد و غم
ھر اک شعر پہ خون بہا کے چھوڑ گئی
میرے آنگن میں جب کبھی بادل اترا
دھوپ تمازت سے بھگا کے چھوڑ گئی
ویران کر گئی گلستان کو فرقت بلبل
جاتے ھوئے اداسی ستا کے چھوڑ گئی
نصیب میں خوشی تو کشاں کشاں ملی
قسمت الم کی تصویر بنا کے چھوڑ گئی
حسن وہ کسی طبیب معالج کے پاس نہیں
وہ دوا ئے دردجو قسمت پلا کے چھوڑ گئی