شفق کے رنگ سے رنگین جب وہ شام ہوئی
اداسیوں کی صدا پھر شہر میں عام ہوئی
سبھی نے جام محبت کے پی لیے بھر کے
ہمارے وقت میں آ کر وفاء حرام ہوئی
گلوں میں سب کے محبت کے ہار ڈالے گئے
ہمارے واسطے شمشیر بے نیام ہوئی
سبھی کو اذن کے کھل کر یہاں کلام کریں
مگر ہماری زباں کے لیے لگام ہوئی
قصور معاف کیے سب ہی کے یہاں لیکن
سزا ہمارے لیئے ہی مگر دوام ہوئی
قلانچ بھر نہیں سکتے غزال بھی اب تو
سنا ہے چال بھی انکی سبک خرام ہوئی
تم اسکے عشق میں دنیا سے کل جھگڑتے تھے
وہ بے وفاء بھی تو اشہر نہ تیرے نام ہوئی