زندگی جس کے نام کر ڈالی
اسی نے بے آرام کر ڈالی
ابھی کھل کے مسکرائے کب تھے
مسرتوں کی شام کر ڈالی
عمر کا تو لحاظ کر لیتا
بے وقت بدنام کرا ڈالی
یہ کس نے آج رشتہ توڑا ؟
سانس جس کی غلام کر ڈالی
اپنی تنہائی میں کتنا خوش تھا
ہستی سرِ عام کر ڈالی
میں خود کشی سے نہ باز آتا
کیا کروں حرام کر ڈالی