اذانِ سحر ہوئی ٗ اب لوٹ آؤ
حیات قہر ہوئی ٗ اب لوٹ آؤ
رات بھر بہت تڑپایا تم نے
اب ذہر ہوئی ٗ اب لوٹ آؤ
یوں زیست کے دو ٹکڑے ہو کے
اُجڑا نگر ہوئی ٗ اب لوٹ آؤ
تیرے تحائف ستاتے ہیں مجھے
مشکل یہ ڈگر ہوئی ٗ اب لوٹ آؤ
ملن کے اُجڑے پھول پکارتے ہیں
انتہائے شجر ہوئی ٗاب لوٹ آؤ