ارادہ ہے جب اپنی ہی کشتی ڈبونے کا تو
سمندر میں اب کوئی سیلاب نہیں آتے
میرے نینوں کو دیکھو انہیں کیا ہوا ہے
ان پتھروں میں اب کوئی خواب نہیں آتے
قصور کیا ہے میرا، میری زندگی کے مالک
ان کانٹوں کے گلشن میں اب کوئی گلاب نہیں آتے
اے پتھر دل جب سے تو روٹھ گیا مجھ سے
میری شاعری میں اب کوئی شباب نہیں آتے
اے سنگدل بے وفا کیوں چراتا ہے نظروں کو
ان سوالوں کے تو عرش سے بھی جواب نہیں آتے
خفا جو ھو جاتا تھا وہ تیری ھر بات پے تنویر
سوچتا ھوں شاید تجھے ہی کوئی آداب نہیں آتے