دل کی آغوش میں ارمانوں کو سلایا بھی نہ گیا
وہ کیسا دور تھا جو کبھی بھلایا بھی نہ گیا
ہجر کے لطف سے شناسا ہیں ہم لیکن شب ہجراں
افسانے کا وہ پیندا ہے جو دوہرایا بھی نہ گیا
حکایت زنداں پہ مامور ہے تعبیر کا سفر بھی
چراغ جو جلا تھا لہروں پہ وہ بجھایا بھی نہ گیا
درس تمازت جو ملا ہے زندگی سے ہمیں
مقدر کا کھیل ہے جو کبھی سجایا بھی نہ گیا
خسارہ ہی رہا ہمیں انا کے کھیل میں
بغاوت دل کو سینے میں چھپایا بھی نہ گیا
یہ کیسا کہر لپٹا ہے حیات پہ ساگر
زندہ ہیں پر زندگی کو سلجھایا بھی نہ گیا