ازحد پریشاں کن ہے یہ انداز زندگی
کیونکر ہو پھر سے نشاط کن آغاز زندگی
بے تاب آرزؤں کا ہے ایک سمندر
اب کون ا ٹھائے اپنے یہ ناز زندگی
بے صبر ہو نہ جائے دل کہ دل ہی تو ہے
کیسے سہے پریشاں دل یہ تاز زندگی
شہنائیوں پہ بجنے لگے گیت غم زیست
اب بانسری پہ کون چھیڑے ساز زندگی
افطاریوں کے موسم میں ہے روزہ ہمارا
ارمانوں کی سیج پہ پڑھی نماز زندگی