ازل سے اب تک ایک یہ ہی گِلا رہا
تیری ہر بات میں ہر شخص ملا رہا
بہانے ہی دیے ہمیشہ بدلے میں تونے
شاید اسلیے تجھ پے اعتبار ڈھیلا رہا
چاہت کا تجھے علم ہے تو بس اپنی کا
کیا لینا جو رات بھر سرہانہ گیلا رہا
تیرے اصولوں پر ہی تو زندگی گزاری
ہاں الگ بات کہ ہر پل بہت زہریلا رہا
بھلا کیا ہوگا اٗسکا اسطرح رہ کہ حازق
جو لہجہ دن با دن یوں ہی نوکیلا رہا