ازل کی بات ہے قصہ نہیں مہینوں کا
شباب بکتا رہا ہے سدا حسینوں کا
عیاشیوں پہ امیروں کی تو ہمیشہ ہی
لٹا ہے پیسہ غریبوں کے خوں ۔پسینوں کا
کسی کو مر کے بھی دو گز زمیں نہیں ملتی
کسی کے ہاتھ ہے قبضہ کئی زمینوں کا
بسر ہوئی ہے کرائے پہ زندگی ان کی
مگر ابھی بھی نہیں ہے یہ گھر مکینوں کا
یوں روزگار کی خاطر جہاں میں ہھرتے ہیں
ہمیں نہ اپنا پتا ہے نہ ہم نشینوں کا
جدید دور کی موجوں میں بہہ گئی الفت
سراغ ملتا نہیں پیار کے خزینوں کا
گھرے ہوئے ہیں جو طوفاں میں تو گلہ کیسا
کہ ساتھ چھوڑ دیا ہم نے خود سفینوں کا
نشے میں ڈوبے تو جزبوں سے ہو گئے خالی
یہ حال کس نے کیا ہے جوان سینوں کا
سنائی دے بھی تو کیسے مری صدا تم کو
فضا میں چاروں طرف شور ہے مشینوں کا