اس آئنے میں دیکھنا حیرت بھی آئے گی
Poet: اقبال ساجد By: ساجد ہمید, Multanاس آئنے میں دیکھنا حیرت بھی آئے گی
اک روز مجھ پہ اس کی طبیعت بھی آئے گی
قدغن لگا نہ اشکوں پہ یادوں کے شہر میں
ہوگا اگر تماشا تو خلقت بھی آئے گی
میں آئنہ بنوں گا تو پتھر اٹھائے گا
اک دن کھلی سڑک پہ یہ نوبت بھی آئے گی
موسم اگر ہے سرد تو پھر آگ تاپ لے
چمکے گی آنکھ خوں میں حرارت بھی آئے گی
کچھ دیر اور شاخ پہ رہنے دے صبر کر
پکنے دے پھل کو کھانے میں لذت بھی آئے گی
آنکھیں ہیں تیرے پاس تو پھر سطح آب پر
گہرائی سے ابھر کے عبارت بھی آئے گی
نکلیں چراغ ہاتھ میں لے کر گھروں سے لوگ
سورج کی رہ میں منزل ظلمت بھی آئے گی
یہ جانتا تو کاٹتا ساجدؔ نہ سائے کو
تلوار پر لہو کی تمازت بھی آئے گی
More Sad Poetry






