اس تسلسل سے غم مل رہے ہیں
آنکھ کو بہہ جانے کا موقع نہیں ملتا
دل پہ کتنے ہیں زخم
احساس کو محسوس کرنے کا وقت نہیں ملتا
دامن میں اتنے ہیں چھید
انہیں رفو کرنے کا
ہاتھوں کو صلہ نہیں ملتا
غم پہ غم
غم پہ غم ملتے ہیں
خود کو بھی سنانے کا مگر
حوصلہ نہیں ملتا