میں اس کو ڈھونڈنے نکلا تو
اس رات دریچے خالی تھے
اور سڑکوں پر ویرانی تھی
آکاش کے نیلے ماتھے سے
مہتاب کا جھومر غائب تھا
اس رات بڑی خاموشی تھی
میں اس کو ڈھونڈنے نکلا تو
رستے کے بیچ سمندر تھا
اور اس کے پار پہاڑی تھی
مرے سر پر بوجھ تھا صدیوں کا
اور ہاتھوں میں کلہاڑی تھی
کچھ دور کنارے جوہڑکے
بس مینڈک ہی ٹراتے تھے
اور پیڑ کے پتوں سے کیڑے
اک ساعت میں گر جاتے تھے
میں اس کو ڈھونڈنے نکلا تو
اس رات بڑی خاموشی تھی