اس رنگ اور بوئے گلشن کا افسانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
Poet: سید مجتبیٰ داودی By: سید مجتبیٰ داودی, Karachiاس رنگ اور بوئے گلشن کا افسانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
 ان تھکے تھکے موسموں کو دیوانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
 
 احباب کا دکھ اغیار کا غم اپنوں کا گلہ دشمن کے ستم
 بے کیف و سرور اس دنیا کو آشیانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
 
 ہیں دل و جگر ہی دشمن جاں پر دل و جگر تو اپنے ہیں
 جب اپنے ہیں تو اپنوں کو بیگانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
 
 کیا جذب و فنا کی منزل ہے کیا نشونما کا حاصل ہے
 اک باب نصیحت لکھنا ہے ہر دانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
 
 دو گھونٹ یہاں پینے کے لیئے دو سانس یہاں جینے کے لئیے
 لمحات وصولا کرتے ہیں نذرانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
 
 ہر خواہش کی سو خواہش ہیں سو خواہش کی سو علت بھی
 بھرتا ہی نہیں کبھی چاہت کا پیمانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
 
 جذبات سے کچھ الفت کی تھی لمحے بھر کی غفلت کی تھی
 تا عمر دیا ہے اے شاعر ہرجانہ لکھوں تو کیسے لکھوں
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
 
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 