اس شہر کی ہواؤں میں ھیں میرے دل کی صدائیں
فلک پہ چھا جائے جیسے گھنگھور گھٹائیں
وہ ہم نواں ہے تو کیوں پردوں میں چھپا ہیں
جانتا ہے کہ اب کھو گئ ہیں سب میری ادائیں
میں تو اپنوں کی بھئڑ میں چلتی رہی تنہا
جب ہوش آیا تب ملی مجھے ہی سزائیں
احساسات سے میرے کھیلے ھیں لوگ ہزاروں
جو دل پہ لگا تیر تھی اسی کے ہاتھہ اس کی کمانیں
چشم نم کا قصہ سناؤں تو کیسے سناؤں
آئے ہیں پھر خواب رات سجانے
ہم نے کھولا در خود ہی کر دیا بند اپنا
معلم تھا کہ وہ آے گے پھر ہم کو رولانے
یذداں سے کیا جو ذکر ہم نےاپنا
تبھی پھر لوٹ آئی قہر ہم کو بہلانے
ہزاروں بہتان سجا کر اپنے دامن پہ
میں کیسے نکلوں خود کو سب سے بچانے
ثریا وہ مقام ہے جس پر ہے خود خدا کا بسیرا
کیوں چلے آتے ہیں پھر شام سے سبھی خوشیں چرانے