اب کے اس کی اداس آنکھوں میں بے سبب اداسی تھی
اب کے اس کے چہرے پہ دکھ تھا بدحواسی تھی
اب کے یوں ملا مجھ سے یوں غزل سنی جیسے
میں نا شناسا ہوں وہ بھی اجنبی جیسے
ذرا خال و خد اس کے سوگوار دامن تھا
اب کے اس کے لہجے میں کتنا کھردرا پن تھا
وہ کے عمر بھر جس نے شھر بھر کے لوگوں سے
مجھ کو ہم سخن جانا ازل سے آشنا لکھا
خود سے مہربان لکھا مجھ کو دلربا لکھا
اب کے سادہ کاغذ پہ سرخ روشنائی سے
اس نے تلخ لہجے میں میرے نام سے پہلے
صرف بے وفا لکھا