اس کی خاموشی بھی قیامت سے کم نہیں زید ۔
جب بھی خاموش ہوا ہمے لحد میں پایا ۔
یہ خدایا کیسی ستم ظریفی ہے میرے روح سے
عذرائیل بھی نہی آیا اور مزہ پہلے ہی پایا۔
خطا تو خدا بھی بخش دیتا ہے ایک رحمٰن
مگر دوسری امید سحر تھی وہ تو بس پتھر پایا
شمع ہوئی ہے بیتاب اندھیرون سے اب تو ۔
شمسی نظام ہی ادھر جلتا ہوا ہے پایا ۔
تسکین دل کو کیسے ملے اب یارو اس جہان میں۔
میں گہری آگ کے شعلوں میں جو ہوں پایا ۔