اس کی نظروں میں میں برا ہی رہا
جانے کیوں مجھ سے وہ خفا ہی رہا
بن گیا وہ مرا شریک سفر
اور پھر اجنبی بنا ہی رہا
آہ کا اس پہ کچھ اثر نہ ہوا
میں بھی پتھر کو پوجتا ہی رہا
گھر سے نکلا تھا خود کو بہلا نے
دل چمن میں بھی پر بجھا ہی رہا
ہو سکی تم سے نہ مسیحائ
دل کا زخم آج تک ہرا ہی رہا
اس کے آنے کی جب خبر پائ
راستوں کو میں دیکھتا ہی رہا
ہے الگ ہی مرا انداز سخن
میں زمانے سے بھی جدا ہی رہا
نہ تھا تیرا نصیب وہ زاہد
اس کو رب سے تو مانگتا ہی رہا