تیرے خیال سے لو دے اٹھی ہے تنہائی
شب فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی
رہ حیات میں کچھ مرحلے تو دیکھ لئے
یہ اور بات تیری آرزو نہ راس آئی
یہ سانحہ بھی محبت میں بارہا گزرا
کہ اس نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی
دل افسردہ میں پھر دھڑکنوں کا شور اٹھا
یہ بیٹھے بیٹھے مجھے کن دنوں کی یاد آئی
کھلی جو آنکھ تو کچھ اور ہی سماں دیکھا
وہ لوگ تھے نہ وہ حلیے نہ شہر رعنائی
پھر اس کی یاد میں دل بے قرار ہے ناصر
بچھڑ کر جس سے ہوئی شہر شہر رسوائی