اس کے کوچے سے جو اُٹھ اہلِ وفا جاتے ہیں
تا نظر کام کرے، رُو بہ قفا جاتے ہیں
متصل روتے ہی رہیے تو بجھے آتشِ دل
ایک دو آنسو تو اور آگ لگا جاتے ہیں
وقتِ خوش اُن کا جو ہم بزم ہیں تیرے، ہم تو
درودیوار کو احوال سنا جاتے ہیں
جائے گی طاقتِ پا آہ تو کر لے گا کیا
اب تو ہم حال کبھو تم کو دکھا جاتے ہیں
ایک بیمارِ جدائی ہوں میں آپھی تِس پر
پوچھنے والے جدا جان کو کھا جاتے ہیں
میر صاحب بھی ترے کوچے میں شب آتے ہیں لیک
جیسے دریوزہ گری کرنے گدا جاتے ہیں